Thursday 19 June 2014

کیا انگریزی ذریعہ تعلیم ہماری ترقی کے لیے ضروری ہے




انگریزی تعلیم کے حوالے سے فرمان نواز صاحب کی تحریر[کیا سائنس کی ترقی ہمارے خلاف ہے] نظر سے گزری جو کہ  ایکسپریس کی ویب سائٹ پر ہفتہ، 14جون کو شائع ہوئی۔ یہ تحریر انکے جذبات کا آئینہ ہے۔ انہوں نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔انکی یہ جذباتی تحریر انکی پاکستان اور پاکستانی عوام سے دیرینہ محبت کو ظاہر کرتی ہے مگر انکی سمت تھوڑی سی غلط ہے۔ انگریزی زبان کے جو فوائد انہوں نے گنوائے ہیں ان سے اتفاق کرتا ہوں مگر انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے اختلاف کرتا ہوں۔ اس   اختلاف کو  سمجھنے کے لیے  ہمیں  اقوام کے ماضی اور حال پر نظر ڈالنی ہو گی اور اردو                              زبان کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔




 دنیا کی کوئی بھی قوم ایسی نہیں ہے جس نے کسی اور زبان میں تعلیم حاصل کر کے ترقی کی ہو۔ آپ کے سامنے پورے یورپ کی مثال موجود ہے۔ کسی بھی یورپی ملک میں انگریزی زبان  کو نہ تو سرکاری حیثیت  حاصل ہے نہ ہی  تعلیمی ۔ وہ تمام مضامین اپنی ہی زبان میں پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔ چین اور جاپان تو ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں مگر پھر بھی انکے یہاں ذریعہ تعلیم انگریزی نہیں ہے۔تمام مضامین جن میں سائنس اور انجینیرنگ بھی شامل ہیں وہ اپنی ہی زبان میں پڑھاتے ہیں اور بہترین نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

 مختلف ممالک میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے اگر انگریزی کی ضرورت ہے تو اسکو   درجہ دوم کی زبان کے طور پر با آسانی سیکھا جا سکتا ہے۔  ملازمت یا تعلیم کے حصول کے لیے ہماری آبادی کا بہت ہی زیادہ قلیل حصہ ہی سفر کرکے بیرون ملک جاتا ہے۔   اس بات کو وجہ بنا کر  پورے ملک کا زریعہ تعلیم انگریزی کر دینا کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے جبکہ ہمارے ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہاتوں میں بستا ہے جہاں تعلیمی صورت حال ویسے ہی بڑی خستا ہے ۔ انگریزی محض ایک زبان ہے جو کہ کوئی بھی شخص کچھ ہی مہینوں کی محنت کے بعد با آسانی سیکھ سکتا ہے اور اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسکے لیے بچوں کو انکی معصومیت کے دنوں میں تختہ مشق بنانا کہاں کی عقلمندی ہے۔

مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں یورپی اقوام کے فرد عربی زبان سیکھتے ضرور تھے وہ بھی صرف اس لیے کہ مسلمانوں کے علم سے استفادہ  حاصل کرسکیں مگر اپنے ممالک میں عربی کو ذریعہ تعلیم نہیں بناتے تھے۔آپ تاریخ میں سے کوئی ایک مثال سامنے رکھ دیں جس سے پتہ چلتا ہو کہ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں  کسی یورپی قوم نے عربی کو اپنایا ہو یا  اپنا ذریعہ تعلیم بنایا ہو۔ آج ہم لفظ الجبرہ تو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عربی لفظ ہے مگر صرف اس نام کے آپ کو ماضی کی  الجبرہ کی کسی کتاب میں عربی نظر نہیں آئے گی جو کسی یورپین حساب دان نے لکھی ہوگی۔ اسپین کا حال تو سب ہی جانتے ہیں، کیاانہوں نے بھی مسلمانوں کے جانے کے بعد عربی کو ذریعہ تعلیم بنایا تھا ؟ یقینا نہیں۔ انہوں نے تو  عربی لباس ، عربی زبان اور عربی ثقافت کا قلع قمع کرنے کی بھرپور کوشش کی، جس میں وہ پوری طرح کامیاب بھی رہے۔ انہوں نے تو مسلمانوں کا علمی زخیرہ تک جلا کر خاکستر کردیاتھا، وہ تمام کتابیں جو عربی زبان میں تھیں چاہے وو مذہبی ہوں یا نہ ہوں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالی تھیں۔ اسکے باوجود آج انکا شمار ترقی یافتہ ممالک میں کیا جاتا ہے۔

بابائے قوم محمد علی جناح یقینا ً فر فر انگریزی بولتے تھے لیکن اردو کو قومی اور سرکاری زبان بنانے والے بھی وہ ہی تھے۔ اگر وہ اردو کی اہمیت نہ جانتے ہوتے تو ایسا کبھی نہ کرتے۔ اردو وہ زبان ہے جو پاکستان کے مختلف  علاقوں میں  بسنے والے اور مختلف زبان بولنے والوں مختلف علاقائی ثقافت رکھنے والوں کو  آپس میں جوڑتی ہے۔ اردو جو کہ عربی ، فارسی، ہندی اور کئی زبانوں کا مجموعہ ہے اپنے دامن میں ان سب زبانوں میں موجود علم کو سمیٹے ہوئے ہے اور مزید زبانوں اور ان میں موجود علوم کو خود میں ضم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وجہ سے اسکو بولنا اور سیکھنا نہایت آسان ہے۔ اسکا  رسم الخط  بھی عربی پر مشتمل ہے جس سے ایک ایسا شخص بھی واقف ہوتا ہے جو کبھی اسکول ہی نہ گیا ہو کیونکہ ناظرہ قرآن کی تعلیم ہر شخص ہی حاصل کرتا ہے۔ اردو کی بدولت قرآنی عربی سمجھنا  اور آیات کے معنی اور مفہوم سمجھنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔

مضمون نگار خود  ذہنی طور پر الجھن کا شکار ہیں  اور واضح نہیں کر پارہے کہ کہنا کیا چاھتے ہیں۔ کبھی وہ انگریزی کو ہماری ترقی کا  ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعد میں خود ہی لکھتے ہیں کہ ہماری زبوں حالی کی وجہ قدامت پرستی اور بنیاد پرستی ہے زبان نہیں۔ خود ہی  فرماتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں "قومی زبان" کے ساتھ ساتھ ایک  دوسری زبان بھی پڑھائی جاتی ہے لیکن جناب یہاں یہ چاہتے ہیں کہ دوسری زبان کے ساتھ ساتھ قومی زبان بھی پڑھا دی جائے، کیا کریں قومی زبان جو ٹھہری۔ جہاں تک  بات ڈارون کی ہے تو اس پر تفصیل سے آئندہ کبھی لکھوں گا۔ دنیا بھر میں جو لوگ بھی خدا پر ایمان رکھتے ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انسانی ارتقاء کے نظریے کی مخالفت کر تے ہیں۔ اس نظریے کی شدت سے حمایت صرف دہریے ہی کرتے ہیں۔ اسکی  وجہ صرف یہ ہے کہ اس نظریے کے ذریعے وہ خدا کے وجود کو رد کرنے کی ناکام کوشش کرتے  ہیں۔ محترم،  اگرآپ  صرف نظریہء ارتقاء کو ہی سائنس سمجھتے ہیں اور انگریزی کو سائنس کی زبان سمجھتے ہیں تو آپ سائنس کے حوالے سے انتہائی سطحی معلومات رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر منطقی بات ہے کہ سائنس کو کسی ایک زبان کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ انگریزی صرف اور صرف ایک زبان ہے جس  کا ہماری ترقی یا تننرلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔




میں خود ایک استا د ہوں اور یہ بات جانتا ہوں کہ طالب علموں کو انگریزی کی با نسبت اردو میں سمجھانا نہایت آسان ہوتا ہے۔  اپنی زبان میں جو فہم ایک استاد اپنے طلباء کو دے سکتاہے وہ کسی اجنبی زبان میں ممکن ہی نہیں ہے۔ سائنس کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے انگریزی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ضرورت ہے تو اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں اور تعلیم سے وابستہ اساتذہ اور محکمہء تعلیم سے وابستہ افسران اور ماہرین تعلیم کا معیار  جانچا جائے اور انہیں بہتر کیا جائے۔  تعلیمی پالیسیاں اس طرح تیار کی جائیں کے  کارگر ثابت  ہوں اور بجٹ میں تعلیم کے لیے ایک خطیر رقم مختص کی جائے اور نصاب کی ایک مقررہ وقت پر  تدوین کی جائے اور اس پر نظر ثانی کی جائے اور اسے بین الاقوامی معیا ر سے ہم آہنگ کیا جائے۔ انگریزی کو محض ایک زبان کہ طور پر پڑھا یا جائے۔  اگر یہ اقدامات خلوص نیت کے ساتھ اٹھالیے گئے تو ہمیں ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔




No comments:

Post a Comment