Thursday 25 July 2013

ایک حمام میں۔۔۔۔


زید حامد ہوں یا حامد میر یا پھر طاھر اشرفی، کسی کی بھی ذات شکوک کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ جہاں زید حامد پر یوسف کذاب کا خلیفہ ہونے کا اور اسکی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہےوہیں پر حامد میر پر بھی غداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔ علامہ طاہر اشرفی کی ذات بھی تنقید کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ کبھی ان پر مغربی سفارت خانوں کی محافل میں شراب نوشی کا الزام عائد کیا جاتا ہے تو کبھی جوئےکا۔  یہ تمام الزامات وہ ہیں جو ان افراد کے ذاتی کردار کی عکاسی کرتے ہیں مگر بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی ھے۔

حامد میر پر تحریک طالبان پاکستان سے رابطے کا الزام بھی لگایا جاتا ھے جو کہ  کرنل امام اور خالد خواجہ کی موت کی وجہ بنا جس کے ثبوت کے طور پر ایک ٹیلیفون کال کا ذکر کیا جاتا ھے جو کہ حامد میر اور تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے۔


اسی طرح زید حامد پر بھی الزام ہے کہ وہ مولانا جلال پوری کے قتل میں ملوث ہیں۔ جس کی توثیق ان کے سابق ماتحت عماد خالد بھی کرتے ہیں۔ عماد کا کہنا یہ ہے کہ زید حامد پہلے سے ہی جلال پوری صاحب پر قاتلانہ حملے کے بارے میں جانتے تھے جس کی وجہ سے زید حامد کی ذات شک کے دائرے میں آتی ھے۔ علامہ طاھر اشرفی پر بھی مسلکی قتل و غارت کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جاتا ھے اور انکا تعلق لشکرجھنگوی سے جوڑا جاتا ہے۔ 


یہ وہ تین افراد ہیں جو اس وقت ایک دوسرے پر الیکڑانک میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے زریعے تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر انتہائی واہیات زبان کا بے دریغ استعمال بھی جاری ہے۔ حامد میر، "حامد میر جعفر" اور علامہ طاہر اشرفی "حرام چربی کا ڈرم" بن چکے ہیں جبکہ زید حامد کو مکار، فریبی، کذاب اور دجال کے القابات سے نوازہ جا چکا ھے۔ ان حضرات کے چاھنے والے بھی ایک دوسروں کی تواضع بھرپور گالیوں سے کر رہے ھیں۔ 

عوام خصوصی طور پر نوجوان طبقہ بری طرح سے ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہے کیونکہ کرپشن کے حمام میں سب ھی ننگے نظر آ رھے ہیں۔ اپنی پوزیشن کوئی بھی واضح نہیں کر رہا ہے کیونکہ پرانے مردے اکھیڑنے پر نئی باتیں سامنے آنے کا خوف موجود ہے۔

حامد میر اور جیو گروپ کو چاہیے کہ وہ خود احتسابی کا مظاہرہ کریں اور US Aid اور دور درشن سے "امن کی آشا" اور "زرہ سوچئے" کے لیے امداد لینا بند کردیں اور تھوڑی حب الوطنی کا مظاہرہ کریں۔ بھارت کے ساتھ دوستی اور امن کی بات ضرور کریں مگر برابری اور ملکی وقار کو نظر میں رکھ کر۔ غیرملکی مواد اپنے ٹی وی چینل اور اخبارات میں کم سے کم شامل کریں اور ملک میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دیں۔

علامہ طاہر اشرفی اور زید حامد، یوسف کذاب کے معاملے پر علماٍ کونسل کی جلد تشکیل کریں اور اپنے اپنے دلائل پیش کریں اور اس مسلئے کو ھمیشہ کے لئے ختم کریں۔

 سوال یہ ہے کہ عوام ان میں سے کس کو معتبر جانے کیونکہ ان میں سے کسی کی بھی ذات شکوک و شبہات سے مبرا نھیں ھے۔

No comments:

Post a Comment