Saturday 12 July 2014

کتب خانوں کی کمیابی اور مطالعہ کا فقدان




ایک  وقت تھا جب  کتب و رسائل پڑھنے کا رجحان کافی زیادہ تھا جو رفتہ رفتہ ناپید ہوتا چلا گیا۔ اس کا ذمہ دار ٹی وی یا کمپیوٹر کو دیں یا کسی اور چیز کو اس کا سبب بیان کریں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ من حیث القوم ہم نے کتب بینی سے منہ موڑ لیا ہے۔ انٹرنیٹ اور ویب کو بھی ہم معلومات کے حصول کے لیے انتہائی کم اور دیگر تفریحی مشاغل کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

مجھے اپنا بچپن یاد ہے جب ہم "ماہنامہ نونہال" کے دیوانے تھے اور پورا مہینہ اسکا انتظار کیا کرتے تھے اور جب پڑھنے بیٹھتے تو پورا      رسالہ ختم کر کے ہی اٹھتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اخبار کا مطالعہ بھی روزانہ کے معمولات میں شامل ہوتا تھا بھلے اس میں صرف ٹارزن کی تصویری کہانی  ہی پڑھیں۔ جب عمر تھوڑی سی زیادہ ہوئی تو کہانیوں کے انتحاب میں بھی تبدیلی ہوئی اور مشہور مصنف اشتیاق احمد کے لکھے ہوئے جاسوسی ناول پڑھنے شروع کیے۔ ساتھ ساتھ ابنِ صفی اور مظہر کلیم کے لکھے ہوئے عمران سیریز کے ناول بھی سیکڑوں کی تعداد میں  پڑھے۔ صرف یہی نہیں  بلکہ دیگر اخبارات اور  رسائل  بشمول  ڈائجسٹوں کے مطالعہ میں شامل رہے۔ یہ مطالعہ تو وہ ہے جو محض تفریحات میں شامل ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کتابوں کے مطالعے کا سلسلہ بھی چل نکلا تھا جن میں سائنس ، ادب، مذہب اور تاریخ شامل تھے جو اب بھی جاری ہے۔ بچپن سے مطالعہ کی عادت جو کہ ہمیں ہمارے بڑوں سے ورثہ میں ملی بڑے ہو کربہت کام آئی اور جب ہی آج بھی کتابوں سے محبت اپنی جگہ برقرار ہے۔



کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے۔ مگر یہ سچا دوست آجکل  نا پید ہوتا جا رہا ہے۔ آجکل نوجوانوں کے ہاتھوں میں موبائل فون اور ٹیبلٹ  تو نظر آتے ہیں مگر کتابیں نہیں ۔ انکے لیے تو نصاب کی کتب کو پڑھنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
لائبریریوں کا تو میری نوجوانی کے زمانے میں بھی فقدان تھا اور اب تو کتب خانے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ کالج کے زمانے میں اپنے گھر کے قریب ایک کتب خانے جانے کا اتفاق ہو۔ کتب خانے ميں داخل ہونے کے بعد یہ پہلے تو یہ گمان  ہوا کہ غلطی سے کہیں میں کسی کباڑخانے میں تو داخل نہیں ہو گیا ہوں۔ اتنا وحشت زدہ ماحول پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا جس کی وجہ سے  ذہین میں یہی سوچ چل رہی تھی کہ لوگ یہاں بیٹھ کر مطالعہ کس طرح کرتے ہوں گے۔ ان مشکالات سے گزرنے کے بعد جب کتابوں کی فہرستوں تک پہنچا تو کافی دیر سر کھپانے کے بعد بھی اپنی مطلوبہ کتب تلاش  نہ کرسکا۔  فہرستوں سے صاف اندازہ ہوتا تھاکہ نئی کتب کی آمد کا سلسلہ عرصہ دراز سے بند ہو چکا ہے۔ اس دن کے بعد سے پھر دوبارہ اس کتب خانے کا رخ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ بات آج سے کوئی بیس سال پہلے کی ہوگی اور آج نجانے کیا حال ہو چکا ہو گا۔

زمانہء طالب علمی کے گزرنے اور عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ایک بار انٹر بورڈ جانا ہوا تو لگے ہاتھوں یہ بھی سوچا کہ یہاں کی لائبریری میں ممبرشپ بھی حاصل کرلی جائے۔ یہ سوچ لے کر اندر داخل ہوا تو دائیں طرف ایک خاتون میز کرسی لگائے بیٹھی تھیں۔  ان کے پاس پہنچ کر میں نے اپنا مدعا بیان کیا کہ  تو  ان کا جواب سن کر میں سٹپٹا کر رہ گیا  کیوں کہ خاتون نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں لائبریری کی  ممبرشپ کیوں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تھوڑی دیر تک ميں خاموشی سے کھڑا رہا اور پھر جواب دیا کہ لائبریری میں لوگ کس کام کےلیے آتے ہیں یہ بات آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔ اسکے بعد تو خاتون نے مجھے ممبر شپ فارم تو دے دیا مگر  پوری کوشش کی کہ میں ممبر شپ لیے بغیر ہی وہاں سے چلا جاؤں۔  وجہ اسکی صرف یہ تھی کہ جنتے زیادہ لوگ ممبر شپ حاصل کریں گے تو لائبریرین کے کام میں اتنا ہی زیادہ اصافہ ہو گا۔ یہی وجہ تھی کہ خاتون گنے چنے چند لوگوں کو ممبر شپ دے کر آرام سے میز کرسی لگائے بیٹھیں تھیں اور میں انکے آرام میں مخل ہونے جسارت کر بیٹھا تھا۔

مطالعہ کے فقدان کی ایک بنیادی وجہ مہنگائی میں اصافہ ہے جس کی وجہ سے قارئین کتب کی خریداری سے قاصر ہیں۔ ایک بار ایک کتابوں کی دکان پر صحیح بخاری کا  کئی جلدوں پر مشتمل مکمل مجموعہ دیکھا۔ دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خریدا جائے اور دکاندار سے قیمت معلوم کر بیٹھا اور خود ہی شرمندہ ہو کر واپس آگیا کیونکہ انکی قیمت سینکڑوں  میں نہیں  بلکہ ہزاروں ميں تھی  جو میری استطاعت سے باہر تھی۔ کتب خانوں کی ضرورت اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ تمام کتب ہر کسی کی دسترس میں آ سکیں اور ہر خاص و عام ان سے فائدہ اٹھا سکے۔



کراچی کی جتنی آبادی ہے اس کے تناسب میں کتب خانے نہ ہونے کے برابر ہیں اور دیگر شہروں کا بھی حال ایسا ہی ہے اور لوگوں میں کتب بینی کا شوق ویسے ہی معدوم ہو چکا ہے ۔  جن قوموں میں مطالعہ کا فقدان ہوجاتا ہے  انکی ذہنی صلاحیتیں تنزلی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ کبھی  ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی ہیں۔



No comments:

Post a Comment