Thursday 10 July 2014

انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام





کئی لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ بھائی آپ تو مغرب کے  خلاف اتنا  زیادہ  لکھتے ہیں اور آپ تو فیس بک اور یوٹیوب کے اوپر لگنے والی پابندی کے بھی حق میں تھے تو اب آپ خود ہی فیس بک باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں اور گوگل کی دیگر مصنوعات  سے بھی استفادہ حاصل کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کھلی منافقت کر رہے ہیں۔ بظاہر ان کی بات درست بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ میں نے فیس بک پر توہین آمیز خاکوں پر مبنی صفحات کے حوالے سے  زبانی اور تحریری طور پر کافی احتجاج بھی کیا تھا اور میں یوٹیوب کی بندش کا بھی حامی تھا۔

جب فیس بک پر سے پابندی ختم ہوئی تھی تو  کچھ لوگ جو پابندی کے حق میں نہ تھے کیونکہ انکے کچھ "خصوصی روابط" کھٹائی میں پڑ گئے تھے جس کی وجہ سے وہ بن آبی مچھلی کی طرح تڑپ رہے تھے ۔ وہ    لوگ  میری طرف دیکھ کر یا تو طنزیہ مسکرائے یا پھر کھل کر بے شرمی سے ہنسے کہ دیکھو جیت تو ہماری ہی ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں فیس بک  کی سائٹ دوبارہ کھل گئی۔  مجھے واقعی اس وقت اپنی ہار کا شدید دکھ تھا کیونکہ فیس بک پر اس وقت بھی توہین آمیز صفحات موجود تھے۔

  مجھے اس بات کا دکھ اور زیادہ شدید تھا کہ ہماری نئی نسل کس دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ ایک نوجوان سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ میرے تو زیادہ تر کاروباری گاہک فیس بک پر موجود تھے اور اب پابندی کی وجہ سے میں ان سے رابطہ نہیں کر پا رہا ہوں۔ دوسرے نوجوان نے کہا کہ میرے تو یونیورسٹی کے تما م ہم جماعت فیس بک پر تھے اب میں ان سے بات نہیں کر پا رہا۔ غرض ہر کوئی اپنا مدعا پیش کرتا رہا اور میں  یہ سوچتا رہا کہ یا الٰہی کسی کو بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کا احساس نہیں ہے۔ کسی کے دل میں بھی رسولِ  خدا  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھوڑی سی بھی محبت باقی نہيں رہی ہے۔ حبِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا تو تقاضا  یہ ہے کہ وہ ہمیں  ماں باپ سے بڑھ کر عزیز ہوں مگر نوجوانوں کو تو اپنے کاروباری اور دوستانہ روابط عزیز تھے۔ فیس بک بند ہونے سے تو انکی دنیا ہی اندھیری ہو گئی تھی  کیونکہ جڑے ہوئے دلوں میں دراڑ جو پڑگئی تھی۔ کئی لوگ تو اس بات سے پریشانی کا شکار تھے کہ جن با حیاء خواتین سے وہ پیار کی پینگیں بڑھا رہے تھے انکے تو موبائل نمبر  انکے پاس نہیں تھے اور فیس بک ہی ان کا آخری سہارہ تھا۔

پابندی ہٹنے کے کچھ عرصے بعد میں بھی  فیس بک پر نظر آنے لگا۔  یہ وہ موقع تھا جب  کچھ لوگ حیرت کے سمندر میں غوطے لگاتے رہ گئے، کچھ لوگوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور کچھ لوگوں نے پہلے کی طرح اپنی جیت کا جشن منایا کہ دیکھو یہ وہی شخص ہے جو ہمیں منع کرتا تھا آج خود یہاں موجود ہے اور مجھے  "موسمی مولوی"   کا خطاب بھی عطا کردیا گیا۔

گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ٹیکنالوجی ایک ایسا سیلاب ہے جس کے آگے بند باندھنا تقریباً    ناممکن ہےمگر نوجوانوں کے ناپختہ ذہنوں کو شعور بخشا جاسکتا ہے۔ ان کو  کم   از کم وہ   راہ   ضرور دکھائی جاسکتی ہے جو ان کو حبِ رسول تک لے جائے یا پھر وہ مغرب کی کارستانیوں سے ضرور آگاہی حاصل کر لیں اور  کم از کم ان کو شعور کی سیڑھیاں چڑھنے کی دعوت ضرور دی جاسکتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں نوجوان معلومات کے سیلاب میں بہتے چلے جارہے ہیں ان کو معلومات اور علم میں تمیز کرنا سکھایا جا سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم سے پتہ چلتا ہے کہ علم اٹھالیا جائے گا اور  مسند احمد کی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ خط وکتابت اور تحریری مواد کی بہتات ہو گی۔

ان تما م اہداف کو حاصل کرنے کےلیے سماجی میڈیا سےزیادہ آسان اور بہتر پلیٹ فارم مجھے اور کوئی نظر نہیں آیا کیونکہ نوجوانوں کو اکثریت یہاں موجود ہے۔ کیونکہ آج کل نوجوان معلومات کے حصول کے لئے  کتب و رسائل سے زیادہ  انٹرنیٹ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے میں نے مغرب کا ہتھیار انکے خلاف ہی استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔  جس کا پہلا قدم یہ تھا کہ فیس بک کو  دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کیا جائے۔  میری فیس بک پر آمد کی وجہ یہی تھی اور الحمدللہ آج تک اپنے مشن سےپیچھے نہیں ہٹا۔

مغرب کے ہتھیارکو مغرب کے خلاف استعمال کرنے میں اور انکے بنائے ہوئے پلیٹ فارم پر  ان کو ہی شکست دینے میں   جو مزا ہے  وہ  کسی اور چیز میں مجھے حاصل نہیں ہوتا۔ مگر ڈر بس اس بات کا ہے اکیلے یہ جہاد ميں کب تک کر پاؤں گا۔ نا پائیدار زندگی نجانے کب تک ساتھ دے۔  اس وجہ سے ہر دن کو اپنا آخری دن سمجھ کر زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اتنا کر جاؤں کہ نوجوان اس سے کچھ استفادہ حاصل کر سکیں او رمیں انگلی  کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوا لوں۔





No comments:

Post a Comment